حضرت ثابت رضی اللہ عنہ کی بیٹی فرماتی ہیں کہ جب قرآن مجید میں یہ آیت نازل ہوئی :
ترجمہ [ اے اہل ایمان ! اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کر و ۔ ( الحجرات ۔ 2 )]
تو میرے والد گھر کے دروازے بند کرکے اندر بیٹھ گئے اور رونے لگے جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نہ پایا تو بلا کر گھر بیٹھ رہنے کی وجہ پوچھی انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میری آواز [ طبعی طورپر ] بلند ہے میں ڈرتا ہوں کہ میرے اعمال ضائع نہ ہو جائیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ ان میں سے نہیں ہیں بلکہ آپ خیر والی زندگی جئیں گے اور خیر والی موت مریں گے ان کی بیٹی کہتی ہیں کہ پھر جب یہ آیت نازل ہوئی :
ترجمہ : [ کہ اللہ تعالی کسی اترانے والے خودپسند کو پسند نہیں کرتا ۔ ( لقمان ۔ 18 ) ]
تو میرے والد نے پھر دروازہ بند کر دیا گھر میں بیٹھ گئے اور روتے رہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں نہ پایا تو انہیں بلوایا اور وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں تو خوبصورتی کو پسند کر تا ہوں اور اپنی قوم کی قیادت کو بھی ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ ان میں سے نہیں [ جن کے بارے میں آیت نازل ہوئی ہے ] بلکہ آپ تو بڑی پسندیدہ زندگی گزاریں گے اور شہادت کی موت پاکر جنت میں داخل ہوں گے۔ جنگ یمامہ کے دن جب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں مسلمانوں نے مسیلمہ کذاب پر حملہ کیا تو ابتداء میں مسلمانوں کو پیچھے ہٹنا پڑا اس وقت حضرت ثابت بن قیس اور حضرت سالم رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہم لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو اس طرح نہیں لڑتے تھے۔ پھر دونوں حضرات نے اپنے لیے ایک ایک گڑھا کھودا اور اس میں کھڑے ہوکر ڈت کر لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہوگئے اس دن حضرت ثابت رضی اللہ عنہ نے ایک قیمتی زرہ پہن رکھی تھی ان کی شہادت کے بعد ایک مسلمان نے وہ زرہ اٹھالی ۔ اگلے دن ایک مسلمان نے خواب میں دیکھاکہ حضرت ثابت رضی اللہ عنہ اسے فرما رہے ہیں میں تمھیں ایک وصیت کر رہا ہوں تم اسے خیال سمجھ کر ضائع نہ کر دینا میں جب کل شہید ہوا تو ایک مسلمان میرے پاس سے گزرا اور اس نے میری زرہ اٹھالی وہ شخص لوگوں میں سب سے دور جگہ پر رہتا ہے اور اس کے خیمے کے پاس ایک گھوڑا رسی میں بندھا ہوا کود رہا ہے اور اس نے میری زرہ کے اوپر ایک بڑی ہانڈی رکھ دی ہے اور اس ہانڈی کے اوپر اونٹ کا کجاوہ رکھا ہوا ہے تم خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور انہیں کہو کہ وہ کسی کو بھجوا کر میری زرہ اس شخص سے لے لیں پھر جب تم مدینہ منورہ جانا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ [ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ] سے کہنا کہ میرے زمے اتنا اتنا قرضہ ہے اور میرے فلاں فلاں غلام آزاد ہیں [ پھر اس خواب دیکھنے والے کو فرمایا ] اور تم اسے جھوٹا خواب سمجھ کر بھلا مت دینا ۔ چنانچہ [ صبح ] وہ شخص حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان تک پیغام پہنچایا تو انہوں نے آدمی بھیج کر زرہ وصول فرمالی ۔ پھر مدینہ پہنچ کر اس شخص نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پورا خواب سنایا تو انہوں نے حضرت ثابت رضی اللہ عنہ کی وصیت کو جاری فرما دیا ۔ ہم کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے مرنے کے بعد وصیت کی ہو اور اس کی وصیت کو پورا کیا گیا ہو سوائے حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے ۔ ( المستدرک )
یہ تحریر فیسبک سے لی گئی ہے
ایڈمن محمد فاران خان
AWK KHAN
0 comments:
Post a Comment